حیرت کے دفتر جاؤں
میں اپنے اندر جاؤں
آنکھیں چار کروں سب سے
آئینے سے ڈر جاؤں
دنیا مل ہی جائے گی
زینے چند اتر جاؤں
ایسا کوئی پل آئے
سائے سے باہر جاؤں
تجھ کو سوچوں پل بھر میں
زنجیروں سے بھر جاؤں
جس رستے ہیں خار ببول
اس رستے اکثر جاؤں
دکھ کے جنگل سے نکلوں
تیری راہ گزر جاؤں
رات فلک پر ابھرے تو
میں تاروں سے بھر جاؤں
کوئی پل کو اکیلا چھوڑ
کوئی کام تو کر جاؤں
غزل
حیرت کے دفتر جاؤں
اکرم نقاش