حیرت اور اضطراب کو ہمسر کروں گا میں
دیکھوں گا تجھ کو آنکھ کو پتھر کروں گا میں
آندھی کو اوڑھ لوں گا ضرورت پڑی اگر
تپتی ہوئی چٹان کو بستر کروں گا میں
لوگوں کو ایک شام دکھاؤں گا معجزہ
سائے کو اپنے قد کے برابر کروں گا میں
سانپوں کو دوستوں سے بھی ڈسواؤں گا کبھی
دیکھو گے یہ تماشا سڑک پر کروں گا میں
یا اپنی بند مٹھیاں دیکھوں گا غور سے
ورنہ خیال دست سکندر کروں گا میں
غالبؔ کے بعد اردو غزل مر گئی نظامؔ
مردے پہ ایسا کون سا منتر کروں گا میں

غزل
حیرت اور اضطراب کو ہمسر کروں گا میں
نظام الدین نظام