EN हिंदी
حیرت اور اضطراب کو ہمسر کروں گا میں | شیح شیری
hairat aur iztirab ko ham-sar karunga main

غزل

حیرت اور اضطراب کو ہمسر کروں گا میں

نظام الدین نظام

;

حیرت اور اضطراب کو ہمسر کروں گا میں
دیکھوں گا تجھ کو آنکھ کو پتھر کروں گا میں

آندھی کو اوڑھ لوں گا ضرورت پڑی اگر
تپتی ہوئی چٹان کو بستر کروں گا میں

لوگوں کو ایک شام دکھاؤں گا معجزہ
سائے کو اپنے قد کے برابر کروں گا میں

سانپوں کو دوستوں سے بھی ڈسواؤں گا کبھی
دیکھو گے یہ تماشا سڑک پر کروں گا میں

یا اپنی بند مٹھیاں دیکھوں گا غور سے
ورنہ خیال دست سکندر کروں گا میں

غالبؔ کے بعد اردو غزل مر گئی نظامؔ
مردے پہ ایسا کون سا منتر کروں گا میں