حیران سی ہے بھچک رہی ہے
نرگس کس گل کو تک رہی ہے
آئی ہے بہار غنچے چٹکے
کیا پھولوں کی بو مہک رہی ہے
مے خانے پہ مینہ برس رہا ہے
بجلی کیسی چمک رہی ہے
باقی ہے اثر ابھی جنوں کا
سودا تو گیا ہے جھک رہی ہے
پوچھو نہ جلن کا دل کے احوال
اک آگ پڑی دہک رہی ہے
نرگس کو تو آنکھ اٹھا کے دیکھو
کس یاس سے تم کو تک رہی ہے
لیلیٰ مجنوں کا رٹتی ہے نام
دیوانی ہوئی ہے بک رہی ہے
پیغام بہار آن پہونچا
بلبل کیا کیا چہک رہی ہے
مژگاں کا جو دل میں ہے تصور
اک پھانس پڑی کھٹک رہی ہے
ہو جائے گا رام رفتہ رفتہ
وحشت تو مٹی جھجک رہی ہے
باقی جو یہ جان ناتواں ہے
کیا زندوں میں ہے سسک رہی ہے
آنے کی ترے ہی منتظر ہے
او موت کہاں تو تھک رہی ہے
کیا شوخ ہے وہ سنہری رنگت
کندن کی طرح دمک رہی ہے
روئے رنگیں عرق فشاں ہے
شبنم گل سے ٹپک رہی ہے
ہم رندؔ ہیں بزم اپنی کس رات
بے جام مے و گزک رہی ہے
غزل
حیران سی ہے بھچک رہی ہے
رند لکھنوی