EN हिंदी
حیراں ہوں کہ یہ کون سا دستور وفا ہے | شیح شیری
hairan hun ki ye kaun sa dastur-e-wafa hai

غزل

حیراں ہوں کہ یہ کون سا دستور وفا ہے

عرش صدیقی

;

حیراں ہوں کہ یہ کون سا دستور وفا ہے
تو مثل رگ جاں ہے تو کیوں مجھ سے جدا ہے

تو اہل نظر ہے تو نہیں تجھ کو خبر کیوں
پہلو میں ترے کوئی زمانے سے کھڑا ہے

لکھا ہے مرا نام سمندر پہ ہوا نے
اور دونو کی فطرت میں سکوں ہے نہ وفا ہے

میں شہر و بیاباں میں تجھے ڈھونڈ چکا ہوں
بے درد تو کس حجلۂ پنہاں میں چھپا ہے

ہم رکھتے ہیں دعویٰ کہ ہے قابو ہمیں دل پر
تو سامنے آ جائے تو یہ بات جدا ہے

میں دوزخ‌ جاں میں بھی رہا محو تگ و تاز
اے خالق افلاک تجھے تو یہ پتا ہے

غم ہے کہ مسلسل اسی شدت سے ہے جاری
یوں کہنے کو اس عمر کا ہر لمحہ نیا ہے

ہر سمت ہوا تیز فضا تا بہ افق تنگ
دل ذرۂ صحرا ہے بگولوں میں گھرا ہے

کیوں جاگے ہوئے شہر میں تنہا ہے ہر اک شخص
یہ روشنی کیسی ہے کہ سایہ بھی جدا ہے

اے داور محشر تجھے خود تیری قسم ہے
انصاف سے کہہ دل کبھی تیرا بھی پھٹا ہے

محسوس کیا ہے کبھی تو نے بھی وہ خنجر
غم بن کے جو ہر شخص کے سینے میں گڑا ہے

ٹھہرائے اسے عرشؔ کوئی کیسے جفا کیش
جو مجھ سے الگ رہ کے بھی ہم راہ چلا ہے