حیراں ہوں کہ اب لاؤں کہاں سے میں زباں اور
لب کہتے ہیں کچھ اور انہیں ہوتا ہے گماں اور
جائیں تو کہاں جائیں محبت کے خریدار
ارباب سیاست نے تو کھولی ہے دکاں اور
معلوم نہیں ہے مرے صیاد کو شاید
گھٹتی ہے اگر سانس تو کھلتی ہے زباں اور
اب وعدۂ فردا میں کشش کچھ نہیں باقی
دہرائی ہوئی بات گزرتی ہے گراں اور
دیکھے گی جو اک پل میں مری آنکھ سے تجھ کو
ہو جائے گی دنیا تری جانب نگراں اور
لگ جاتی ہیں مہریں سی لبوں پر انہیں مل کر
ہوتا ہے مگر دل کے دھڑکنے کا سماں اور
کھلتی ہیں نہیں حشر کے دن بھی مری آنکھیں
شاید کہ مقدر میں ہے اک خواب گراں اور
ہم راکھ ہوئے اس پہ مگر آنچ نہ آئی
جلنے کا سماں اور جلانے کا سماں اور
گو عرض و طلب ایک حسیں شغل ہے لیکن
اس کھیل میں بڑھ جاتا ہے اندیشۂ جاں اور
معراج تکلم ہے خموشی مری بسملؔ
آتی ہی نہیں کوئی مجھے طرز فغاں اور
غزل
حیراں ہوں کہ اب لاؤں کہاں سے میں زباں اور
بسمل صابری