ہیں یوں مست آنکھوں میں ڈورے گلابی
شرابی کے پہلو میں جیسے شرابی
وہ آنکھیں گلابی اور ایسی گلابی
کہ جس رت کو دیکھیں بنا دیں شرابی
بدلتا ہے ہر دور کے ساتھ ساقی
یہ دنیا ہے کتنی بڑی انقلابی
جوانی میں اس طرح ملتی ہیں نظریں
شرابی سے ملتا ہے جیسے شرابی
نچوڑو کوئی بڑھ کے دامن شفق کا
فلک پر یہ کس نے گرا دی گلابی
گھنی مست پلکوں کے سائے میں نظریں
بہکتے ہوئے مے کدوں میں شرابی
ذرا مجھ سے بچتے رہو پارساؤ
کہیں تم کو چھو لے نہ میری خرابی
نذیرؔ اپنی دنیا تو اب تک یہی ہے
شراب آفتابی فضا ماہتابی
غزل
ہیں یوں مست آنکھوں میں ڈورے گلابی
نذیر بنارسی