EN हिंदी
ہیں تیغ ناز یار کے بسمل الگ الگ | شیح شیری
hain tegh-e-naz-e-yar ke bismil alag alag

غزل

ہیں تیغ ناز یار کے بسمل الگ الگ

ارشد علی خان قلق

;

ہیں تیغ ناز یار کے بسمل الگ الگ
سینے میں ہیں تپاں جگر و دل الگ الگ

قاتل تو رشک دیکھ ذرا اپنے کشتوں کا
مقتل میں بھی تڑپتے ہیں بسمل الگ الگ

کیا انتظام ہے مرے لیلیٰ جمال کا
مجنوں رواں ہیں سب پس محفل الگ الگ

دیکھو بشر میں صنعت خلاق روزگار
سب ایک ہیں مگر ہے شمائل الگ الگ

فرماتے ہیں ملاپ کا کرتا ہوں جب سوال
تو بات کرنے کے نہیں قابل الگ الگ

اک شیفتہ ہے زلف کا اک مبتلاے رخ
ہیں شیخ و برہمن ترے قائل الگ الگ

میرے تمہارے بلبل و گل منہ چڑھیں گے کیا
دونوں کو کر چکا ہوں میں قائل الگ الگ

مکر و نفاق عشق سے مدت تلک رہا
میں دل سے اور مجھ سے مرا دل الگ الگ

تا ہو تمیز لذت بادام و شہد میں
بوسوں کا چشم و لب کے ہوں سائل الگ الگ

کس کس کو دوں میں سخت مصیبت میں جان ہے
رخسار و زلف مانگتے ہیں دل الگ الگ

کیا مہر و ماہ کیا گل و شمشاد آئنہ
سب ہو چکے ہیں تیرے مقابل الگ الگ

یکتا تو وہ ہے مومن و کافر یہود و گبر
وحدت کے تیرے سب ہیں یہ قائل الگ الگ

پائے نگاہ اہل نظر کے پڑے ہیں نیل
رخسار نازنیں پہ نہیں تل الگ الگ

آگے تو ساتھ رہتے تھے ہم ہالہ ساں پر اب
رہتا ہے ہم سے وہ مہ کامل الگ الگ

انداز و ناز و غمزہ و شوخی و کجروی
ہیں ایک میرے دم کے یہ قاتل الگ الگ

قبضے پہ ہاتھ رکھ کے قلقؔ نے ملائی آنکھ
کل ہر رقیب سے سر محفل الگ الگ