ہیں نکہت گل باغ میں اے باد صبا ہم
دم بھر میں نمودار ہیں دم بھر میں فنا ہم
تشریف تو لے آئیں وہ روٹھے رہیں ہم سے
جھگڑا تو مٹے صلح بھی ہو جائے گی باہم
ہم تیرے شناسا ہیں ہمیں غیر سے کیا کام
آگاہ کسی سے بھی نہیں تیرے سوا ہم
پوچھا تھا یہ میں نے کہ مٹائے گا مجھے کون
قسمت ابھی خاموش تھی جو اس نے کہا ہم
وہ کہتے ہیں دعویٰ ہے اسے ہوش و خرد کا
بیخودؔ کو پلائیں گے مے ہوش ربا ہم
غزل
ہیں نکہت گل باغ میں اے باد صبا ہم
بیخود دہلوی