EN हिंदी
ہیں مرے وجود میں موجزن مری الفتوں کی نشانیاں | شیح شیری
hain mere wajud mein maujzan meri ulfaton ki nishaniyan

غزل

ہیں مرے وجود میں موجزن مری الفتوں کی نشانیاں

جاوید جمیل

;

ہیں مرے وجود میں موجزن مری الفتوں کی نشانیاں
نہ ہوئیں نصیب جو قربتیں انہیں قربتوں کی نشانیاں

تھکی ہاری شکل نڈھال سی کسی امتحاں کے سوال سی
مرے جسم و جان پہ ثبت ہیں تری فرقتوں کی نشانیاں

کبھی آنکھیں غیظ سے تربتر کبھی لعن طعن زبان پر
مجھے میری جاں سے عزیز ہیں تری نفرتوں کی نشانیاں

ہو وہ بوئے گل کہ ہو راگنی ہو وہ آبشار کہ چاندنی
ہیں قدم قدم پہ سجی ہوئیں تری نزہتوں کی نشانیاں

کئی بار روز کئی جگہ مری روح پڑھتی ہے فاتحہ
مرے پورے جسم میں دفن ہیں مری حسرتوں کی نشانیاں

کہیں ناچتی ہوئیں مستیاں کہیں بھوک سے ہیں لڑائیاں
کہیں دولتوں کے مظاہرے کہیں غربتوں کی نشانیاں

وہ زمین ہو کہ ہو آسماں وہ پہاڑ ہوں کہ ہوں وادیاں
ہیں چہار سمت مرے خدا تری رحمتوں کی نشانیاں