ہیں مناظر سب بہم پردہ نظر باقی نہیں
سامنے منزل ہے لیکن رہ گزر باقی نہیں
شاعری جس نے چھڑائے تھے جہاں کے کاروبار
اب تکلف بر طرف اس میں ہنر باقی نہیں
شہر نو میں کیوں رہے اب یہ شکستہ سا مکاں
گر کھڑی دیوار کوئی ہے تو در باقی نہیں
وہ تو جادو کا بنا تھا ہائے ایسا ہی نہ ہو
لوٹ کر پہنچوں تو دیکھوں اب وہ گھر باقی نہیں
مطمئن تھے خوش تھے اور دنیا میں بھی مصروف تھے
ہم تو سمجھے تھے کہ اب فن کا سفر باقی نہیں
اب یہ لازم ہے کہ اس دنیا میں جینا سیکھ لوں
خوب پر قانع رہوں جب خوب تر باقی نہیں
آپ سونے کا قفس لانے کی زحمت مت کریں
ہم وہ طائر ہیں کہ جن کے بال و پر باقی نہیں
غزل
ہیں مناظر سب بہم پردہ نظر باقی نہیں
شبنم شکیل