ہیں گردشیں بھی رواں بخت کے ستارے میں
تباہ میں ہی نہیں وہ بھی ہے خسارے میں
نگاہ پھیر لی اس نے چھپا لیے آنسو
مگر بلا کی کشش تھی اس اک نظارے میں
تلاطموں کی صفت عشق میں رہی ہر دم
سفینہ دل کا مسلسل ہے تیز دھارے میں
جلا سکے جو دل و جاں وہی نظر قاتل
وگرنہ سوز و تپش ہے کہاں شرارے میں
تمام رات ہواؤں سے گفتگو کرنا
عجب ہے شوق محبت کے ہر ستارے میں
تعلقات نبھانا بھی ایک فن ہے میاں
میں تیرے میٹھے میں شامل نہ تیرے کھارے میں
اداس لمحوں میں ذاکرؔ وہ جب ملا مجھ سے
نظر اٹھا کے کہا کچھ نہ اپنے بارے میں
غزل
ہیں گردشیں بھی رواں بخت کے ستارے میں
ذاکر خان ذاکر