ہیں دل جگر ہمارے یہ مہر و ماہ دونوں
پہنچے ہیں آسماں پہ ہمراہ آہ دونوں
ہے بزم بے وفائی رونق پزیر ان سے
روشن رہیں یہ تیری چشم سیاہ دونوں
اے ترک چشم تیری خوں ریزیٔ مژہ سے
پیٹیں ہیں سر گنہ گار اور بے گناہ دونوں
بیمار دل کے ہم دم اک درد و غم تھے سو بھی
بہر عیادت آتے ہیں گاہ گاہ دونوں
کوئی زلف کو کہے زلف کاکل کو سمجھے کاکل
اپنی نظر میں تو ہیں مار سیاہ دونوں
تنہا کٹے گی کیوں کر اے سیل اشک کہہ تو
ہم دم دل و جگر تھے ہو گئے تباہ دونوں
کیا شیخ کیا برہمن ہیں پھیر میں دوئی کے
گمراہ ہو گئے ہیں بھولے ہیں راہ دونوں
غزل
ہیں دل جگر ہمارے یہ مہر و ماہ دونوں
جوشش عظیم آبادی