ہیں دھبے تیغ قاتل کے جسے دھونے نہیں دیتے
مرے احباب تجدید وفا ہونے نہیں دیتے
مری وحشت کے سائے جھانکتے رہتے ہیں روزن سے
یہ آدم خور مجھ کو رات بھر سونے نہیں دیتے
شکست آرزو رسوائی فکر و نظر پیہم
یہی حالات مجھ کو آپ کا ہونے نہیں دیتے
تقاضائے وفا میں بھی ستم کا ایک پہلو ہے
میں رونا چاہتا ہوں اور وہ رونے نہیں دیتے
حبیبؔ اپنی خطا تھی ہو گئے رسوا زمانے میں
کہ ہم صحن چمن میں بجلیاں بونے نہیں دیتے

غزل
ہیں دھبے تیغ قاتل کے جسے دھونے نہیں دیتے
حبیب آروی