ہیں دم کے ساتھ عشرت و عسرت ہزارہا
وابستہ ایک تار نفس سے ہیں تار ہا
کچھ صید زخم خوردۂ جاناں ہمیں نہیں
ہر صید گہ میں اس کی ہیں بسمل شکار ہا
آیا وہ جب تو ہم نہ رہے آپ میں غرض
دیکھا اسی طرح سے اسے ہم نے بارہا
اس گل کے چاک جیب کی حسرت سے باغ میں
ہر صبح چاک ہوتی ہیں جیب و کنار ہا
اس سوزن مژہ کے تصور میں شانہ ساں
ٹوٹے ہیں ایک خلق کے پہلو میں خار ہا
کس کس کی دیکھیے چمن صنع میں بہار
اپنی فقط دو چشم ہیں اور یاں بہار ہا
تھے کل یہ خط عارض خوبان سبزہ رنگ
کہتے ہیں آج خلق جنہیں سبزہ زار ہا
تھے کل یہ شاہدان سہی سرو و سیم تن
شاہد ہیں آج مرگ کے جن کے مزار ہا
سب کو نظیرؔ سونا ہے ایک دن بہ زیر خاک
سنگ مزار اس کے ہیں آئینہ دار ہا
غزل
ہیں دم کے ساتھ عشرت و عسرت ہزارہا
نظیر اکبرآبادی