ہیبت حسن سے الفاظ کی حیرانی تک
بات پہنچی تھی ابھی چاند کی پیشانی تک
آپ کیا درہم و دینار لیے پھرتے ہیں
ہم تو ٹھکرا بھی چکے تخت سلیمانی تک
وصل کے قصے تو تمہید ہیں سنتے رہیے
بات پہنچے گی ابھی قوت ایمانی تک
قصۂ رفتہ مکمل نہیں ہوگا ورنہ
ذکر جاری رہے اقدار کی ارزانی تک
آپ محسن ہیں مگر کھیل کی مجبوری ہے
دل تو آتا ہی نہیں راہ میں سلطانی تک
اس نے کچھ سوچ کے صحرا کی طرف موڑ دیا
پیاس بس پہنچنے والی تھی ابھی پانی تک
دفعتاً وقت نے رفتار بڑھا دی ورنہ
بھاگتا میں بھی رہا اک حد امکانی تک

غزل
ہیبت حسن سے الفاظ کی حیرانی تک
شعیب نظام