ہے یہ صورت غم کے بس اظہار کی
ڈھال دیجے شکل میں اشعار کی
خیریت مطلوب ہے دل دار کی
داستاں مت چھیڑئیے سنسار کی
ہے عجب صورت یہاں تکرار کی
دل کی مانیں بات یا دل دار کی
خاصیت یہ دل کے ہے دربار کی
قدر ہوتی ہے یہاں بس پیار کی
ہے خوشی اتنے میں ہی بیمار کی
کوئی صورت تو ہوئی دیدار کی
ذمہ داری تم پہ ہے گھر بار کی
حرکتیں چھوڑو میاں بے کار کی
دل میں رہتے ہیں مگر انجان سے
جانے کیا مرضی ہے اپنے یار کی
مسئلہ پند و نصیحت کا درست
چھاپ پڑتی ہے مگر کردار کی
ہر تعلق کا ہے کچھ مقصد سحرؔ
کون سنتا ہے کسی لاچار کی

غزل
ہے یہ صورت غم کے بس اظہار کی
سحر محمود