ہے یہ شہر عشق یاں آب و ہوا کچھ اور ہے
سرخ رنگت ہے زمیں کی اور فضا کچھ اور ہے
یاں جنوں ہے کاروان شوق کو بانگ رحیل
اے مسافر یہ پیام نقش پا کچھ اور ہے
ہے جدا اس شہر دل میں لذت رنج و الم
اس جگہ خون جگر کا ذائقہ کچھ اور ہے
عارف کامل ہیں ان صحراؤں کے صحرا نورد
یاں تو ہر مجنوں کا انداز و ادا کچھ اور ہے
ذکر کی تمثیل ہر تنثیل کی تعبیر ہے
لطف جنت اور ہے آب بقا کچھ اور ہے
ریگزار ہجر میں احساس کے زمزم نہاں
اس جگہ تو تشنگی کا سلسلہ کچھ اور ہے
تو جو نو وارد ہے سن یاں عیش ہستی ہے جدا
حسن کی سرکار میں لفظ فنا کچھ اور ہے
دوش پر آغوش میں پہلو میں حیدر کب نہ تھے
دست مرسل پر بلندی کا مزا کچھ اور ہے
اہل رد و کد نے سو تفسیر کی اک لفظ کی
پر نہ سمجھے کہ نبیؐ کا مدعا کچھ اور ہے
سن کسی مجذوب سے ایک بار روداد غدیر
خم کے منبر پر علی کا مرتبہ کچھ اور ہے
سرخ رو ہو جائے تجھ سے دعویٔ الفت شہاب
عاشقوں کے زندہ رہنے کی ادا کچھ اور ہے

غزل
ہے یہ شہر عشق یاں آب و ہوا کچھ اور ہے
عفت عباس