ہے یاد تجھ سے میرا وہ شرح حال دینا
اور سن کے تیرا اس کو ہنس ہنس کے ٹال دینا
کر کر کے یاد اس کی بے حال ہوں نہایت
فرصت ذرا تو مجھ کو تو اے خیال دینا
اس زلف کج کے عقدے ہرگز کھلے نہ مجھ پر
کیوں اس کو شانہ کر کے ایک ایک بال دینا
میں مدعا کو اپنے محمل کہوں ہوں تجھ سے
گوش دل اپنا ایدھر صاحب جمال دینا
اس عمر بھر میں تجھ سے مانگا ہے ایک بوسہ
خالی پڑے نہ پیارے میرا سوال دینا
ہم سے رکھائیاں اور منہ جھلسے مدعی کا
بوسہ پہ بوسہ ہر دم دوں بے سوال دینا
یارب کسی پہ ہرگز عاشق کوئی نہ ہو جو
دل ہاتھ دلبروں کے ہے بد مآل دینا
وہ مہرباں کہ ہم کو الطاف بر محل سے
پاس اپنے سے تھا اس کو اٹھنے محال دینا
دیکھے ہے دور سے تو کہتا ہے بے مروت
یہ کون آ گھسا ہے اس کو نکال دینا
قابو ہے تیرا حسرتؔ مت چھوڑ مدعی کو
دشمن کو مصلحت نیں ہرگز مجال دینا
غزل
ہے یاد تجھ سے میرا وہ شرح حال دینا
حسرتؔ عظیم آبادی