ہے یاد جوش یہ جس وقت اشک باری تھی
تو ایک نہر اسی آستیں سے جاری تھی
زمین باغ پہ گرتے ہیں ٹوٹ کر تارے
ستارہ دار قبا اس نے کیوں اتاری تھی
میں آنکھیں بند کئے تھا وہ دیکھتے ایدھر
جسے وہ سمجھتے تھے غفلت وہ ہوشیاری تھی
لہو کے اشک جو ٹپکے تو کھل گیا یہ راز
نگہ تھی دل میں کہ اتری ہوئی کٹاری تھی
ملی ہے دیکھیے یہ صبح حشر سے جا کر
لحد کی رات نہ تھی شام غم ہماری تھی
نہیں ہیں ہم تو چمکتا ہے صبح کا تارا
یہ رات وہ تھی جو بیمار غم پہ بھاری تھی
غزل
ہے یاد جوش یہ جس وقت اشک باری تھی
جاوید لکھنوی