ہے وجہ کوئی خاص مری آنکھ جو نم ہے
بس اتنا سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا کرم ہے
یہ عشق کی معراج ہے یا ان کا کرم ہے
ہر وقت مرے سامنے تصویر صنم ہے
کعبے سے تعلق ہے نہ بت خانے کا غم ہے
حاصل مرے سجدوں کا ترا نقش قدم ہے
دیوانوں پہ کس درجہ ترا لطف و کرم ہے
بخشا ہے جو غم تو نے وہی حاصل غم ہے
سر جب سے جھکایا ہے در یار پہ میں نے
محراب خودی جلوہ گہہ شمع حرم ہے
کیا کام زمانے سے اسے اے شہ خوباں
تقدیر میں جس کی تری فرقت کا الم ہے
کونین بدل جائے مگر تو نہ بدلنا
تیرے ہی سبب اہل محبت کا بھرم ہے
پلکوں پہ بکھرتے ہیں تری یاد کے موتی
ہر اشک ندامت ترا انداز کرم ہے
ظاہر میں کوئی کعبہ کوئی دیر و کلیسا
باطن میں ہر اک چیز ترا نقش قدم ہے
کر اپنی نظر سے مرے ایمان کا سودا
اے دوست تجھے میری محبت کی قسم ہے
یہ عمر گزر جائے مگر ہوش نہ آئے
سر شوق عبادت میں در یار پہ خم ہے
اے دوست ترے عشق میں پہنچا ہوں یہاں تک
آنکھوں میں صنم خانہ ہے سینے میں حرم ہے
کس طرح فناؔ چھوڑوں صنم خانۂ الفت
حاصل مرے ایمان کا دیدار صنم ہے
دنیا سے نرالی ہے فناؔ مقتل الفت
اس مقتل الفت میں جو سر ہے وہ قلم ہے
غزل
ہے وجہ کوئی خاص مری آنکھ جو نم ہے
فنا بلند شہری