ہے وہی ناز آفریں آئینہ نیاز میں
جس کی ضیا ہے سوز میں جس کی صدا ہے ساز میں
اپنے نیاز مند ہے پردے کی رسم و راہ ہے
ورنہ حجاب کو کہاں دخل حریم ناز میں
سجدے میں مر گیا اگر پھر نہ اٹھے گا حشر تک
قید نہ رکھیے وقت کی میرے لیے نماز میں
ناز کو نور کر دیا سرور کائنات نے
وہ جو لگی تھی طور پر آ کے بجھی حجاز میں
ناطقؔ سوختہ جگر دل پہ تو ہاتھ رکھ ذرا
اب کے بھی کچھ چمک سی تھی نالۂ جاں گداز میں
غزل
ہے وہی ناز آفریں آئینہ نیاز میں
ناطقؔ لکھنوی