ہے واہموں کا تماشا یہاں وہاں دیکھو
ہمارے پاس مکمل خدا کہاں دیکھو
دل و دماغ کے اندر انا کی گونج سنو
بلا سی کوئی لہو میں رواں دواں دیکھو
نفس کا سانپ کہاں زیر ہونے والا ہے
پھر اس کے بعد کوئی اور امتحاں دیکھو
اب اپنے گھر کے لیے اک نئی زمیں سوچو
زمیں کے سر پہ کوئی تازہ آسماں دیکھو
اس اک سوال کے کتنے عذاب جھیل چکا
کچھ اور درد بنو اور امتحاں دیکھو
گزر کے جانا ہے وحشت کے ایک دریا سے
یقیں نہ ہو تو یہاں راستہ کہاں دیکھو
کہاں سے آئے گی اب روشنی محبت کی
بہت دھواں ہے مکانوں کے درمیاں دیکھو
میں بے یقین ہوں ایسا کہ میرے ہاتھوں میں
تمام آیتیں سورج کی رائیگاں دیکھو
پھٹا ہوا کسی عریاں سوال جیسا ہے
ہمارے سر پہ یہ رحمت کا سائباں دیکھو
نشان ریت کے آئے ہیں میرے حصے میں
نکل گیا ہے بہت دور کارواں دیکھو
مسیح موت کا پیغام لے کے آیا ہے
اب اور کون بچائے گا میری جاں دیکھو
مرے حروف ادھوری اڑان جیسے ہیں
مرا شعور معانی کا آسماں دیکھو
وہ ایک لمحہ حیات آشنا لکھو احمدؔ
وگرنہ ساری کہانی ہی رائیگاں دیکھو
غزل
ہے واہموں کا تماشا یہاں وہاں دیکھو
احمد شناس