ہے شکل تیری گلاب جیسی
نظر ہے تیری شراب جیسی
ہوا سحر کی ہے ان دنوں میں
بدلتے موسم کے خواب جیسی
صدا ہے اک دوریوں میں اوجھل
مری صدا کے جواب جیسی
وہ دن تھا دوزخ کی آگ جیسا
وہ رات گہرے عذاب جیسی
یہ شہر لگتا ہے دشت جیسا
چمک ہے اس کی سراب جیسی
منیرؔ تیری غزل عجب ہے
کسی سفر کی کتاب جیسی
غزل
ہے شکل تیری گلاب جیسی
منیر نیازی