ہے صدف گوہر سے خالی روشنی کیوں کر ملے
آج شاید راستے میں کوئی پیغمبر ملے
کیسی رت آئی کہ سارا باغ دشمن ہو گیا
شاخ گل میں بھی ہمیں تلوار کے جوہر ملے
دور تک جن راستوں پر منتظر بیٹھے تھے لوگ
لوٹ کر باد صبا آئی تو کچھ پتھر ملے
روشنی کی کھوج میں پلٹیں زمیں کی جب تہیں
کچھ لہو کے داغ کچھ ٹوٹے ہوئے خنجر ملے
آخر اب ایسا بھی کیا دنیا سے بد دل ہونا زیبؔ
پہلے مٹی میں تو میرے یار یہ جوہر ملے
غزل
ہے صدف گوہر سے خالی روشنی کیوں کر ملے
زیب غوری