EN हिंदी
ہے رنگ حنا جن میں وہی ہاتھ دکھا دے | شیح شیری
hai rang-e-hina jin mein wahi hath dikha de

غزل

ہے رنگ حنا جن میں وہی ہاتھ دکھا دے

جاوید لکھنوی

;

ہے رنگ حنا جن میں وہی ہاتھ دکھا دے
حسرت ہے کہ پھر دل میں کوئی آگ لگا دے

یکتائی کا دعویٰ تو بہت کچھ ہے مری جان
کیا ہو جو کوئی آئنہ محفل میں دکھا دے

سبزے کی طرح سو گئے وہ صحن چمن میں
بے سمجھے چٹک کر کوئی غنچہ نہ جگا دے

خط پڑھ کے نہ تھم دم مرا رک جاتا ہے قاصد
جو جو مری تقدیر کا لکھا ہے سنا دے

ہنس دیتے ہیں منہ پھیر کے وہ میرے سرہانے
جب لوگ یہ کہتے ہیں خدا اس کو شفا دے