ہے رنگ حنا جن میں وہی ہاتھ دکھا دے
حسرت ہے کہ پھر دل میں کوئی آگ لگا دے
یکتائی کا دعویٰ تو بہت کچھ ہے مری جان
کیا ہو جو کوئی آئنہ محفل میں دکھا دے
سبزے کی طرح سو گئے وہ صحن چمن میں
بے سمجھے چٹک کر کوئی غنچہ نہ جگا دے
خط پڑھ کے نہ تھم دم مرا رک جاتا ہے قاصد
جو جو مری تقدیر کا لکھا ہے سنا دے
ہنس دیتے ہیں منہ پھیر کے وہ میرے سرہانے
جب لوگ یہ کہتے ہیں خدا اس کو شفا دے
غزل
ہے رنگ حنا جن میں وہی ہاتھ دکھا دے
جاوید لکھنوی