ہے نور خدا بھی یہاں عرفان خدا بھی
یہ ذات کہ ہے وادیٔ سینا بھی حرا بھی
اس بن میں کیا کرتی ہے تپ میری انا بھی
اس شہر میں ہے کار گۂ ارض و سما بھی
کرتا ہوں طواف اپنا تو ملتی ہے نئی راہ
قبلہ بھی ہے یہ ذات مرا قبلہ نما بھی
خود آگہی و خود نگہی کا ہے یہ انعام
اور جرم شناسایٔ عالم کی سزا بھی
ہوتا ہے شب و روز تماشا سر احساس
جو دیکھتی رہتی ہے مری آنکھ دکھا بھی
کرتی ہے کمر بستہ سفر پر بھی یہی ذات
جب دور نکل جاتا ہوں دیتی ہے صدا بھی
ذرے میں ہے کونین تو کونین میں ذرہ
کچھ ہے تجھے آوارۂ افلاک پتا بھی
غزل
ہے نور خدا بھی یہاں عرفان خدا بھی
عمیق حنفی