ہے مفت دل کی قیمت اگر اک نظر ملے
یہ وہ متاع ہے کہ نہ لیں مفت اگر ملے
انصاف کر کہ لاؤں میں پھر کون سا وہ دن
محشر کے روز بھی نہ جو داد جگر ملے
پروانہ وار ہے حد پرواز شعلہ تک
جلنے ہی کے لیے مجھے یہ بال و پر ملے
آنے سے خط کے جاتے رہے وہ بگاڑ سب
بن آئی اب تو حضرت دل لو خضر ملے
کیا شکر کا مقام ہے مرنے کی جاہے دل
کچھ مضطرب سے آج وہ بیرون در ملے
عالم خراب ہے نہ نکلنے سے آپ کے
نکلو تو دیکھو خاک میں کیا گھر کے گھر ملے
ہے شام ہجر آج او ظالم او فلک
گردش وہ کر کہ شام سے آ کر سحر ملے
گو پاس ہو پہ چین تو ہے اس بگاڑ میں
کیا لطف تھا لڑے وہ ادھر اور ادھر ملے
دل نے ملا دیں خاک میں سب وضع داریاں
جوں جوں رکے وہ ملنے سے ہم بیشتر ملے
ٹوٹے یہ بخیہ زخم کا ہمدم کہیں سے لا
خنجر ملے کٹار ملے نیشتر ملے
تھا اصل میں مراد ڈبونا جہان کا
قابل سمجھ کے گویا ہمیں چشم تر ملے
اس کی گلی میں لے گئے آزردہؔ کو اسے
دی تھی دعا یہ کس نے کہ جنت میں گھر ملے
غزل
ہے مفت دل کی قیمت اگر اک نظر ملے
مفتی صدرالدین آزردہ