EN हिंदी
ہے میرے سر سے کوئی بوجھ اتارنے والا | شیح شیری
hai mere sar se koi bojh utarne wala

غزل

ہے میرے سر سے کوئی بوجھ اتارنے والا

زاہد فارانی

;

ہے میرے سر سے کوئی بوجھ اتارنے والا
پکارتا ہے یہ ہر دم پکارنے والا

پھرا ہے یوں وہ رخ آئنہ نما مجھ سے
کوئی نہیں میری صورت سنوارنے والا

بنا ہوں سینۂ دریا کا بوجھ مدت سے
کوئی رہا ہی نہیں پار اتارنے والا

بدلتی جاتی ہے حالت زمیں کے چہرے کی
کہ آسماں ہے نیا روپ دھارنے والا

اتر کے کار گہہ فن میں فتح یاب ہوا
بساط دہر پہ ہر روز ہارنے والا

میں اپنے عہد کا صناع‌ شہر ہوں زاہدؔ
مرا قلم ہے نئے نقش ابھارنے والا