ہے میرے سر سے کوئی بوجھ اتارنے والا
پکارتا ہے یہ ہر دم پکارنے والا
پھرا ہے یوں وہ رخ آئنہ نما مجھ سے
کوئی نہیں میری صورت سنوارنے والا
بنا ہوں سینۂ دریا کا بوجھ مدت سے
کوئی رہا ہی نہیں پار اتارنے والا
بدلتی جاتی ہے حالت زمیں کے چہرے کی
کہ آسماں ہے نیا روپ دھارنے والا
اتر کے کار گہہ فن میں فتح یاب ہوا
بساط دہر پہ ہر روز ہارنے والا
میں اپنے عہد کا صناع شہر ہوں زاہدؔ
مرا قلم ہے نئے نقش ابھارنے والا
غزل
ہے میرے سر سے کوئی بوجھ اتارنے والا
زاہد فارانی