ہے میرے گرد یقیناً کہیں حصار سا کچھ
اور اس کو بھی ہے دعاؤں پہ اعتبار سا کچھ
کہیں تو گوشۂ دل میں امید باقی ہے
کہیں ہے اس کی نظر میں بھی انتظار سا کچھ
کہا جب اس نے کے آنکھوں پہ اعتبار نہ کر
تو میں نے مانگ لیا دل پہ اختیار سا کچھ
یہ سارا کھیل فقط گردشوں کا ہے آہنگ
فضول ڈھونڈ رہے ہو یہاں قرار سا کچھ
جو لے کے آیا تھا سیلاب خوشبوؤں کا کبھی
وہ بھر گیا ہے مری آنکھ میں غبار سا کچھ
اتر چکا ہے بدن سے تمام نشۂ وصل
چڑھا چڑھا سا طبیعت پہ ہے خمار سا کچھ
سنا ہے یہ بھی بزرگی کی اک علامت ہے
سو میں بھی ہونے لگا تاجؔ خاکسار سا کچھ
غزل
ہے میرے گرد یقیناً کہیں حصار سا کچھ
حسین تاج رضوی