EN हिंदी
ہے کیوں نقل مکانی یہ ہوائے تازہ تر کیا ہے | شیح شیری
hai kyun naql-e-makani ye hawa-e-taza-tar kya hai

غزل

ہے کیوں نقل مکانی یہ ہوائے تازہ تر کیا ہے

سید امین اشرف

;

ہے کیوں نقل مکانی یہ ہوائے تازہ تر کیا ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا ادھر کیا ہے ادھر کیا ہے

نمود ابتدا کیا انتہا کیا ہے بشر کیا ہے
یہ کار نقش گر کیوں ہے یہ حیرت کا سفر کیا ہے

رضا اس کی تو پھر چبھتا ہوا یہ نیشتر کیا ہے
بدن کیوں ہے حصار خوف میں آنکھوں میں ڈر کیا ہے

جو سچ پوچھو یہ تصویریں کسی اک کیفیت کی ہیں
خروش نغمہ زن کیوں ہے صدائے نوحہ گر کیا ہے

نہ ہونا بھی ہے ہونا بے مکانی لا مکانی ہے
سر کہسار یا فرش زمیں پر ہوں خبر کیا ہے

نہیں بجھتی شکم کی آگ کار بے سکونی میں
سریر و تاج و کشور کیا منال و مال و زر کیا ہے

جسے نا‌ خوب کہتے ہیں اسی کو خوب کہتے ہیں
تمیز خیر و شر میں نکتۂ صد معتبر کیا ہے

پری تمثال ہیں صبحیں گریباں‌ چاک ہیں شامیں
تلطف ہے کہ محشر جانے تاثیر نظر کیا ہے

فقط اک لمس جسم و روح کو شاداب رکھتا ہے
ہنر مندوں سے پوچھو قند لب میں یہ ہنر کیا ہے

ہری تھیں کھیتیاں مرجھا گئیں باد بہاری سے
نہ جانے پھول سے چہرے کا موسم پر اثر کیا ہے

دم نظارہ اس نے چپکے چپکے کھول دیں زلفیں
مرا یہ پوچھنا ہی تھا کہ ناز بحر و بر کیا ہے

امین اشرفؔ وہ رہتا ہے کہیں اس شہر میں لیکن
ملے کوئی تو پوچھوں صورت دیوار و در کیا ہے