ہے کس کے لیے لطف غضب کس کے لیے ہے
یہ ضابطۂ نام و نسب کس کے لیے ہے
میرے لیے افسردگی نخل تمنا
یہ سلسلۂ تاک طرب کس کے لیے ہے
سچ پر جو یقیں ہے تو اسے کیوں نہیں کہتے
آخر یہ زباں مہر بلب کس کے لیے ہے
ہے جس پہ محبت کی نظر ہوگا پریشاں
اے صانع گل ہجر کی شب کس کے لیے ہے
جب دل کو تعلق نہ رہا کوئے صنم سے
یہ کشمکش ترک و طلب کس کے لیے ہے
اس کار نظر نے کیا تقدیر کا قائل
شب کس کے لیے حاصل شب کس کے لیے ہے
غزل
ہے کس کے لیے لطف غضب کس کے لیے ہے
سید امین اشرف