EN हिंदी
ہے کس کا انتظار کھلا گھر کا در بھی ہے | شیح شیری
hai kis ka intizar khula ghar ka dar bhi hai

غزل

ہے کس کا انتظار کھلا گھر کا در بھی ہے

طارق بٹ

;

ہے کس کا انتظار کھلا گھر کا در بھی ہے
اور جلتا اک چراغ سر رہگزر بھی ہے

ہر لمحہ گھر کو لوٹ کے جانے کا بھی خیال
ہر لمحہ اس خیال سے دل کو حذر بھی ہے

تنہائیاں پکارتی رہتی ہیں آؤ آؤ
اے بیکسی بتا کہیں ان سے مفر بھی ہے

کس طرح کاٹی کیسے گزاری تمام عمر
وہ مل گیا تو ایسے سوالوں کا ڈر بھی ہے

کیوں کر نہ زندگی میں رہے وحشتوں سے کام
ہر لحظہ جب گماں ہو کوئی بام پر بھی ہے