ہے کس کا انتظار کھلا گھر کا در بھی ہے
اور جلتا اک چراغ سر رہگزر بھی ہے
ہر لمحہ گھر کو لوٹ کے جانے کا بھی خیال
ہر لمحہ اس خیال سے دل کو حذر بھی ہے
تنہائیاں پکارتی رہتی ہیں آؤ آؤ
اے بیکسی بتا کہیں ان سے مفر بھی ہے
کس طرح کاٹی کیسے گزاری تمام عمر
وہ مل گیا تو ایسے سوالوں کا ڈر بھی ہے
کیوں کر نہ زندگی میں رہے وحشتوں سے کام
ہر لحظہ جب گماں ہو کوئی بام پر بھی ہے
غزل
ہے کس کا انتظار کھلا گھر کا در بھی ہے
طارق بٹ