ہے خرد مندی یہی باہوش دیوانہ رہے
ہے وہی اپنا کہ جو اپنے سے بیگانہ رہے
کفر سے یہ التجائیں کر رہا ہوں بار بار
جاؤں تو کعبہ مگر رخ سوئے مے خانہ رہے
شمع سوزاں کچھ خبر بھی ہے تجھے او مست غم
حسن محفل ہے جبھی جب تک کہ پروانہ رہے
زخم دل اے زخم دل ناسور کیوں بنتا نہیں
لطف تو جب ہے کہ افسانے میں افسانہ رہے
ہم کو واعظ کا بھی دل رکھنا ہے ساقی کا بھی دل
ہم تو توبہ کر کے بھی پابند میخانہ رہے
آخرش کب تک رہیں گی حسن کی نادانیاں
حسن سے پوچھو کہ کب تک عشق دیوانہ رہے
فیض راہ عشق ہے یا فیض جذب عشق ہے
ہم تو منزل پا کے بھی منزل سے بیگانہ رہے
مے کدہ میں ہم دعائیں کر رہے ہیں بار بار
اس طرف بھی چشم مست پیر میخانہ رہے
آج تو ساقی سے یہ بہزادؔ نے باندھا ہے عہد
لب پہ توبہ ہو مگر ہاتھوں میں پیمانہ رہے
غزل
ہے خرد مندی یہی باہوش دیوانہ رہے
بہزاد لکھنوی