ہے کون کس کی ذات کے اندر لکھیں گے ہم
نہر رواں کو پیاس کا منظر لکھیں گے ہم
یہ سارہ شہر اعلیٰ حکمت لکھے اسے
خنجر اگر ہے کوئی تو خنجر لکھیں گے ہم
اب تم سپاس نامۂ شمشیر لکھ چکے
اب داستان لاشۂ بے سر لکھیں گے ہم
رکھی ہوئی ہے دونوں کی بنیاد ریت پر
صحرائے بے کراں کو سمندر لکھیں گے ہم
اس شہر بے چراغ کی آندھی نہ ہو اداس
تجھ کو ہوائے کوچۂ دلبر لکھیں گے ہم
کیا حسن ان لبوں میں جو پیاسے نہیں رہے
سوکھے ہوئے لبوں کو گل تر لکھیں گے ہم
ہم سے گناہ گار بھی اس نے نبھا لیے
جنت سے یوں زمین کو بہتر لکھیں گے ہم

غزل
ہے کون کس کی ذات کے اندر لکھیں گے ہم
امیر امام