ہے کون جس سے کہ وعدہ خطا نہیں ہوتا
مگر کسی کا ارادہ خطا نہیں ہوتا
جہاں بساط پہ گھر جائے شاہ نرغے میں
وہاں کبھی بھی پیادہ خطا نہیں ہوتا
وہ دشمنوں میں اگر ہو تو بچ بھی جاؤں میں
اسی کا وار مبادا خطا نہیں ہوتا
جو سر بچے بھی تو دستار بچ نہیں سکتی
نشانہ اس کا زیادہ خطا نہیں ہوتا
کسی کی گرد سفر بیٹھتے بھی دیکھیں گے
ہماری نظروں سے جادہ خطا نہیں ہوتا
ہیں تجربے مرے احسان مند لفظوں کے
ہو شکل یا کہ لبادہ خطا نہیں ہوتا
غزل
ہے کون جس سے کہ وعدہ خطا نہیں ہوتا
اشہر ہاشمی