ہے جو سینہ میں جگہ لہکے ہے انگارا سا
دل جو پہلو میں ہے بیتاب ہے وہ پارا سا
آنکھ لگتی ہے کوئی پل تو ہمیں ہاں اس کا
عالم خواب میں ہو جائے ہے نظارا سا
دل ہے اس سوزن مژگاں سے مشبک میرا
چھوٹنے کیوں لگے خون کا فوارا سا
دل کہیں دیدہ کہیں جی ہے کہیں جان کہیں
گردش چرخ میں ہر ایک ہے آوارا سا
سینہ کوباں ترے کوچہ سے رہ جاتا ہے نثارؔ
صبح سے سنتے ہیں ہم کوچ کا نقارا سا
غزل
ہے جو سینہ میں جگہ لہکے ہے انگارا سا
محمد امان نثار