ہے جو خاموش بت ہوش ربا میرے بعد
گل کھلائے گا کوئی اور نیا میرے بعد
تو جفاؤں سے جو بدنام کئے جاتا ہے
یاد آئے گی تجھے میری وفا میرے بعد
کوئی شکوہ ہو ستم گار تو ظاہر کر دے
پھر نہ کرنا تو کبھی کوئی گلہ میرے بعد
عبرت انگیز ہے افسانہ مرے مرنے کا
رک گئے ہیں قدم عمر بقا میرے بعد
زمزمے خانۂ صیاد کے کیوں گونجتے ہیں
کیا کوئی تازہ گرفتار ہوا میرے بعد
سر کے بل عشق کی منزل کو کیا طے میں نے
نہیں ملتے جو نشان کف پا میرے بعد
صابرؔ خستہ کو ہر حال میں یا رب رکھ شاد
کہیں ایسا نہ ہو ہو صبر فنا میرے بعد
غزل
ہے جو خاموش بت ہوش ربا میرے بعد
فضل حسین صابر