ہے جو درویش وہ سلطاں ہے یہ معلوم ہوا
بوریا تخت سلیماں ہے یہ معلوم ہوا
دل آگاہ پشیماں ہے یہ معلوم ہوا
علم خود جہل کا عرفاں ہے یہ معلوم ہوا
اپنے ہی واہمے کے سب ہیں اتار اور چڑھاؤ
نہ سمندر ہے نہ طوفاں ہے یہ معلوم ہوا
ڈھونڈنے نکلے تھے جمعیت خاطر لیکن
شہر کا شہر پریشاں ہے یہ معلوم ہوا
ہم نے آبادیٔ عالم پہ نظر جب ڈالی
دل کی دنیا ابھی ویراں ہے یہ معلوم ہوا
انقلاب آپ ہی دنیا میں نہیں آتے ہیں
وہ نظر سلسلہ جنباں ہے یہ معلوم ہوا
بادشاہی بھی نظر آتی ہے محتاج خراج
تاج کشکول گدا یاں ہے یہ معلوم ہوا
ان کے قدموں پہ جو گر جائے وہی قطرۂ اشک
حاصل دیدۂ گریاں ہے یہ معلوم ہوا
ان کی نظروں پہ جو چڑھ جائے وہی ذرۂ خاک
سرمۂ چشم غزالاں ہے یہ معلوم ہوا
ان کے در تک جو پہنچ جائے وہی آبلہ پا
رہبر قافلۂ جاں ہے یہ معلوم ہوا
آبیاری جو کرے خون رگ جاں تو صباؔ
دل ہر ذرہ گلستاں ہے یہ معلوم ہوا
غزل
ہے جو درویش وہ سلطاں ہے یہ معلوم ہوا
صبا اکبرآبادی