ہے جو بھی جزا سزا عطا ہو
ہونا ہے جو آج برملا ہو
اس دن بھی جو سر پہ دھوپ چمکی
جس دن پہ بہت فریفتہ ہو
اس رات بھی نیند اگر نہ آئی
جس رات پہ اس قدر فدا ہو
رنگوں میں وہی تو رنگ نکلا
جو تیری نظر میں جچ گیا ہو
پھولوں میں وہی تو پھول ٹھہرا
جو تیرے سلام کو کھلا ہو
اک شخص خدا بنا ہوا ہے
کیا ہو جو یہی مرا خدا ہو
سوگند مجھے غزل کی گوہرؔ
میں نے جو زباں سے کچھ کہا ہو
غزل
ہے جو بھی جزا سزا عطا ہو
گوہر ہوشیارپوری