ہے اختیار میں تیرے نہ میرے بس میں ہے
وہ ایک لمحہ جو اوروں کی دسترس میں ہے
وہ منہ سے کچھ نہیں کہتا کہ پیش و پس میں ہے
بدن کا کرب تو ظاہر نفس نفس میں ہے
اگرچہ شور بہت کوچۂ ہوس میں ہے
وہ کیا کرے کہ جو چالیسویں برس میں ہے
کرے گا کون اسے سازش بدن میں شریک
جو شخص قید ابھی روح کے قفس میں ہے
اٹھو کہ پھر ہمیں اذن سفر ملے نہ ملے
ابھی تو لطف صدا نالۂ جرس میں ہے
اسے پسند کہ وہ ٹوٹ کر گرا ورنہ
شجر میں کیا نہیں ہوتا جو خار و خس میں ہے
غزل
ہے اختیار میں تیرے نہ میرے بس میں ہے
پریم کمار نظر