ہے گرم ملکوں کا سورج ترے جلال کی گرد
غرور کاہکشاں ہے ترے جمال کی گرد
محبتوں کے خرابوں میں دھوپ کم نکلی
کبھی جدائی کے کہرے کبھی ملال کی گرد
کبھی تو گزرے ادھر سے بھی کاروان بہار
کبھی تو پہنچے یہاں بھی ترے خیال کی گرد
ہمارے بالوں پہ موسم ہے برف باری کا
ہمارے چہرے پہ اڑتی ہے ماہ و سال کی گرد
تمام عالم امکاں ہے اک خیال میں گم
نہ پا سکے گا زمانہ کبھی خیال کی گرد
غزل
ہے گرم ملکوں کا سورج ترے جلال کی گرد
خاطر غزنوی