EN हिंदी
ہے گرم ملکوں کا سورج ترے جلال کی گرد | شیح شیری
hai garm mulkon ka suraj tere jalal ki gard

غزل

ہے گرم ملکوں کا سورج ترے جلال کی گرد

خاطر غزنوی

;

ہے گرم ملکوں کا سورج ترے جلال کی گرد
غرور کاہکشاں ہے ترے جمال کی گرد

محبتوں کے خرابوں میں دھوپ کم نکلی
کبھی جدائی کے کہرے کبھی ملال کی گرد

کبھی تو گزرے ادھر سے بھی کاروان بہار
کبھی تو پہنچے یہاں بھی ترے خیال کی گرد

ہمارے بالوں پہ موسم ہے برف باری کا
ہمارے چہرے پہ اڑتی ہے ماہ و سال کی گرد

تمام عالم امکاں ہے اک خیال میں گم
نہ پا سکے گا زمانہ کبھی خیال کی گرد