ہے دشمنوں سے بھی وابستہ حسن زن میرا
یہی کمال ہے مجھ میں یہی ہے فن میرا
میں موسموں کے تغیر سے کانپ اٹھتا ہوں
بھری بہار میں اجڑا تھا کل چمن میرا
میں دشت چھوڑ کے آیا ہوں اے نگر والو
کہ لگتے لگتے لگے گا یہاں پہ من میرا
ہے اتنی بھوک مرے وارثوں کو ورثے کی
خرید لائے مرے جیتے جی کفن میرا
اسی نے ایک نیا زخم دے کے چھوڑ دیا
کہ دستیاب جسے بھی ہوا بدن میرا
تمام شہر ہی نقاد ہو گیا عادلؔ
پرکھ رہے ہیں کسوٹی پہ سب سخن میرا
غزل
ہے دشمنوں سے بھی وابستہ حسن زن میرا
کامران عادل