ہے دنیا میں زباں میری اگر بند
مگر معنی کے مجھ پر کب ہیں در بند
جو سب نامہ کیا آتا ہے دیکھیں
لکھا نامہ دیا قاصد کو سر بند
خدا جانے ہے اس میں مصلحت کیا
کھلی ہے راہ لیکن ہے خبر بند
رہائی جیتے جی ممکن نہیں ہے
قفس ہے آہنی دربند پر بند
کہیں بھی اب نہیں میرا ٹھکانا
کہ اک اک گھر ہے بند ایک ایک در بند
نہ کیوں تکلیف ہو ارماں کو دل میں
کہاں جائے کدھر جائے ہے گھر بند
مجھے آتا نہیں کیا کام کرنا
مگر باب دعا بند اور اثر بند
کہیں بھولے سے کوئی آ تو جائے
ہم اپنے دل میں رکھیں گے نظر بند
دعا یہ ہے کہ یارب مطمئن ہوں
ہو الفت میں کسی صورت سے شر بند
وہ رازق رزق پہنچاتا ہے سب کو
کھلیں ستر اگر ہو ایک در بند
برادر قوت بازو ہے مانا
مگر فرزند ہوتا ہے جگر بند
مرا دل بھی طلسمی ہے خزانہ
کہ اس میں خیر بھی ہے اور شر بند
بشیرؔ اچھی زباں پائی ہے تو نے
تری درج دہن میں ہیں گہر بند
غزل
ہے دنیا میں زباں میری اگر بند
بشیر الدین احمد دہلوی