ہے دل میں غبار اس کے گھر اپنا نہ کریں گے
ہم خاک میں ملنے کی تمنا نہ کریں گے
کیونکر یہ کہیں منت اعدا نہ کریں گے
کیا کیا نہ کیا عشق میں کیا کیا نہ کریں گے
ہنس ہنس کے وہ مجھ سے ہی مرے قتل کی باتیں
اس طرح سے کرتے ہیں کہ گویا نہ کریں گے
کیا نامے میں لکھوں دل وابستہ کا احوال
معلوم ہے پہلے ہی کہ وہ وا نہ کریں گے
غیروں سے شکر لب سخن تلخ بھی تیرا
ہر چند ہلاہل ہو گوارا نہ کریں گے
بیمار اجل چارہ کو گر حضرت عیسیٰ
اچھا بھی کریں گے تو کچھ اچھا نہ کریں گے
جھنجھلاتے ہو کیا دیجیے اک بوسہ دہن کا
ہو جائیں گے لب بند تو غوغا نہ کریں گے
دیوار کے گر پڑتے ہی اٹھنے لگے طوفاں
اب بیٹھ کے کونے میں بھی رویا نہ کریں گے
گر سامنے اس کے بھی گرے اشک تو دل سے
کیوں روز جزا خون کا دعوا نہ کریں گے
کس وقت کیا مردمک چشم کا شکوہ
اے پردہ نشیں ہم تجھے رسوا نہ کریں گے
ناصح کف افسوس نہ مل چل تجھے کیا کام
پامال کریں گے وہ مجھے یا نہ کریں گے
اس کو میں ٹھہرنے نہ دیا جوش قلق نے
اغیار سے ہم شکوۂ بے جا نہ کریں گے
گر ذکر وفا سے یہی غصہ ہے تو اب سے
گو قتل کا وعدہ ہو تقاضا نہ کریں گے
مومنؔ وہ غزل کہتے ہیں اب جس سے یہ مضمون
کھل جائے کہ ترک در بت خانہ کریں گے
غزل
ہے دل میں غبار اس کے گھر اپنا نہ کریں گے
مومن خاں مومن