ہے دھوپ کبھی سایہ شعلہ ہے کبھی شبنم
لگتا ہے مجھے تم سا دل کا تو ہر اک موسم
بیتے ہوئے لمحوں کی خوشبو ہے مرے گھر میں
بک ریک پہ رکھے ہیں یادوں کے کئی البم
کمرے میں پڑے تنہا اعصاب کو کیوں توڑو
نکلو تو ذرا باہر دیتا ہے صدا موسم
کس درجہ مشابہ ہو تم میرؔ کی غزلوں سے
لہجے کی وہی نرمی باتوں کا وہی عالم
ساحل کا سکوں تم لو میں موج خطر لے لوں
یوں وقت کے دریا کو تقسیم کریں باہم
غزل
ہے دھوپ کبھی سایہ شعلہ ہے کبھی شبنم
زبیر رضوی