ہے بہت مشکل نکلنا شہر کے بازار میں
جب سے جکڑا ہوں میں کمرے کے در و دیوار میں
چھ برس کے بعد اک سونے مکاں کے بام و در
بس گئے ہیں پھر کسی کے جسم کی مہکار میں
مجھ کو اپنے جسم سے باہر نکلنا چاہئے
ورنہ میرا دم گھٹے گا اس اندھیرے غار میں
یاد اسے اک پل بھی کرنے کی مجھے فرصت نہیں
مبتلا صدیوں سے میرا دل ہے جس کے پیار میں
دیکھتے ہیں لوگ جب خاورؔ پرانی آنکھ سے
کیا نظر آئے کوئی خوبی نئے فن کار میں
غزل
ہے بہت مشکل نکلنا شہر کے بازار میں
بدیع الزماں خاور