ہے بہت اندھیار اب سورج نکلنا چاہیے
جس طرح سے بھی ہو یہ موسم بدلنا چاہیے
روز جو چہرے بدلتے ہیں لباسوں کی طرح
اب جنازہ زور سے ان کا نکلنا چاہیے
اب بھی کچھ لوگو نے بیچی ہے نہ اپنی آتما
یہ پتن کا سلسلہ کچھ اور چلنا چاہیے
پھول بن کر جو جیا ہے وہ یہاں مسلا گیا
زیست کو فولاد کے سانچے میں ڈھلنا چاہیے
چھینتا ہو جب تمہارا حق کوئی اوس وقت تو
آنکھ سے آنسو نہیں شعلہ نکلنا چاہیے
دل جواں سپنے جواں موسم جواں شب بھی جواں
تجھ کو مجھ سے اس سمے سونے میں ملنا چاہیے
غزل
ہے بہت اندھیار اب سورج نکلنا چاہیے
گوپال داس نیرج