ہے عجیب چیز مے جنوں کبھی دل کی پیاس نہیں بجھی
مگر اب ملا کے تو دیکھ لوں ذرا ایک قطرۂ آگہی
مری خامشی مری بے حسی یہی میرا راز فسردگی
کبھی سو گیا ہوں تو جاگ اٹھی ہے یہ دل کی چوٹ دبی دبی
ہے یہ کیسی صحبت مے کشاں کہ ہر ایک جام لہو لہو
یہی دوستی ہے تو اے خدا مجھے راس آئے نہ دوستی
ہے ملول مجھ سے دعائے موت کہ ساتھ اس کا نہ دے سکا
مرے راستے میں جو آ گئی یہی زندگی یہی زندگی
ذرا آ کے سامنے بیٹھ جا مری چشم تر کے قریب آ
مرے آئینے میں بھی دیکھ لے کبھی اپنی زلف کی برہمی
یہی ساتھ ساتھ مرے رہا میں اسی کا پا نہ سکا پتا
کبھی ہر قدم پہ مجھے ملا یہی آدمی یہی آدمی
مرے ساتھ ساتھ چلے تھے سب مرا ساتھ کوئی نہ دے سکا
مرے ہم سفر مرے ہم نظر مری خود سری مری سرکشی
مری سمت اور بھی ساقیا وہ جو بوند بوند میں زہر تھا
جسے اور کوئی نہ پی سکا وہ شراب میرے ہی منہ لگی
میں شہید ظلمت شب سہی مری خاک کو یہی جستجو
کوئی روشنی کوئی روشنی کوئی روشنی کوئی روشنی
غزل
ہے عجیب چیز مے جنوں کبھی دل کی پیاس نہیں بجھی
خلیلؔ الرحمن اعظمی