EN हिंदी
ہے اب تو یہ دھن اس سے میں آنکھ لڑا لوں گا | شیح شیری
hai ab to ye dhun us se main aankh laDa lunga

غزل

ہے اب تو یہ دھن اس سے میں آنکھ لڑا لوں گا

نظیر اکبرآبادی

;

ہے اب تو یہ دھن اس سے میں آنکھ لڑا لوں گا
اور چوم کے منہ اس کا سینے سے لگا لوں گا

گر تیر لگاوے گا پیہم وہ نگہ کے تو
میں اس کی جراحت کو ہنس ہنس کے اٹھا لوں گا

دل جاتے ادھر دیکھا جب میں نے نظیرؔ اس کو
روکا ارے وہ تجھ کو لے گا تو میں کیا لوں گا

واں ابرو و مژگاں کے ہیں تیغ و سناں چلتے
ٹک سوچ تو میں تجھ کو کس کس سے بچا لوں گا

پڑ جاوے گی جب شہہ وہ اے دل تو بھلا پھر میں
کیا آپ کو تھاموں گا کیا تجھ کو سنبھالوں گا