ہے اب کی فصل میں رنگ بہار اور ہی کچھ
ہوا ہے نقشۂ شہر و دیار اور ہی کچھ
نہ شہسوار نہ غزنی نہ کارواں کوئی
افق کے پار اٹھا تھا غبار اور ہی کچھ
شگوفے آج بھی کھلتے ہیں کل بھی کھلتے تھے
ہے اس چمن کی خزاں اور بہار اور ہی کچھ
ہمارے واسطے ہمدم قرار دل مت ڈھونڈ
کہ پا گیا ہے دلوں میں قرار اور ہی کچھ
نہ شاخ کا نہ ثمر کا نہ آشیاں کا ملال
کہ میں نے تجھ پہ کیا تھا نثار اور ہی کچھ
سنا ہے تنگیٔ کنج لحد کا بھی احوال
ہے آج ارض و سما کا فشار اور ہی کچھ
نوائے دل میں وہ آہنگ دل کشا نہ رہا
سخن نے رنگ کیا اختیار اور ہی کچھ

غزل
ہے اب کی فصل میں رنگ بہار اور ہی کچھ
شان الحق حقی